اصلی جادو
کچھ سال پہلے ایودھیا مے ایک شاید کبھی نہ بننے والی فلم کے لئے آڈیشن لے رہا تھا .کلا کی گرمی مے ابلتے لوگو کی کتار
لگی تھی ، پر ہم ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے.بات یہ تھی کی گانے والے سارے کے سارے لوگ کسی نہ کسی کی نکل کر رہے تھے.اپنی نکلی آواز سے وہ ایک مشهور صوفی سنگر کے اسپس پہچنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے.یہ نقل ہمارے خواب پر تیزاب ڈال رہی تھی.ہمنے تین چار روز تک آڈیشن لیا .مگر مجال کی ایک بھی سچچی آواز ہم تک پہچی ہو.اس آڈیشن مے کم سے کم دو درجن لوگوں نے گیا مگر ایک بھی آواز ہمرے کانو تک نہ پہچی .
تنگ آکر ہمنے کیمرے کے لینس پر دھککن لگا دیا.ہمی کوئی امید نہیں تھی کی نکل کا جو دھککن گویا بننے کے نے خواہشمندو نے اپنی آواز پر لگا رکھا ہے.اسمے ہمی کوئی مدد مل پیگی.پھر کی دنو تک ان گویوں کا فون آتا رہا.می سمجھتا رہا کی نکل سے کچھ نہیں ہونے والا.ابھی ابھی کچھ دن پہلے فیض احمد فیض کی گزل "دونو جہاں تیری موحبّت مے ہار کے"کے لئے پھر آواز دھندھنی شرو کی.اسمے دو رہے نہیں کی فیض کو چاہنے والے جتنے اپنے معلق مے ہیں اتنے دوسروں ملقوں مے نہیں.لیکن بات جب آواز کی ای تو می اپنے ملک سے ہار گیا.کوئی مہدی حسن بنتا ہے تو کوئی گلام الی .ایک عہدہ کو چھوڈ دن تو اس معاملے مے بھی یہاں کے ناکلچیوں نے ناک کٹوا رکھی ہے -
ہارکر می سیدھا پاکستان پہچا جہاں ایک بینڈ اندھیرے کمرے مے فیض کو اسی حد تک گنتی ہی آواز ملی.جسکے اسپس کوئی موہبّت گلزار ہوتی دیکھتی.آواز شاید سندھ کی تھی اور لہجہ حمد کا تھا.اس آواز کی موحبّت مے می کچھ یوں مبتلا ہوا کی اب تک اسے خود سے چپکے ہوئے ہوں.نہ صرف خود سے بلکی اپنے یہاں کی گلاب باڈی سے بھی اسے چپکا دیا ہے.بگیر کی ساز کے آتی اس آواز کے اپر مہینے ایودھیا فیزآباد کی تصویریں چسپ کے اور وایا انٹرنیٹ اسے واپس پاکستان پہنچا دیا.ایبتآباد کی لبنا اور کراچی کی نور بیگم ان باکس مے اتر این .انکا چپکایا سرقه لال رنگ کا دل میرے ان باکس مے ہمیشہ محفظ رہیگا .فیصلباد مے ان مولوی سحاب کی دوا بھی جو ہماری گلاب باڈی دیکھ برباس نکل پڑی ہوگی "الله تال آپکو ہر نظربد سے محفظ رکھے "یہ اصل آواز کا جادو تھا جو نکل کرنے والے ناکالچی نہیں سمجھیںگے .
Translation- Hafeez Kidwai
Published in Navbharat Times- India
لگی تھی ، پر ہم ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے.بات یہ تھی کی گانے والے سارے کے سارے لوگ کسی نہ کسی کی نکل کر رہے تھے.اپنی نکلی آواز سے وہ ایک مشهور صوفی سنگر کے اسپس پہچنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے.یہ نقل ہمارے خواب پر تیزاب ڈال رہی تھی.ہمنے تین چار روز تک آڈیشن لیا .مگر مجال کی ایک بھی سچچی آواز ہم تک پہچی ہو.اس آڈیشن مے کم سے کم دو درجن لوگوں نے گیا مگر ایک بھی آواز ہمرے کانو تک نہ پہچی .
تنگ آکر ہمنے کیمرے کے لینس پر دھککن لگا دیا.ہمی کوئی امید نہیں تھی کی نکل کا جو دھککن گویا بننے کے نے خواہشمندو نے اپنی آواز پر لگا رکھا ہے.اسمے ہمی کوئی مدد مل پیگی.پھر کی دنو تک ان گویوں کا فون آتا رہا.می سمجھتا رہا کی نکل سے کچھ نہیں ہونے والا.ابھی ابھی کچھ دن پہلے فیض احمد فیض کی گزل "دونو جہاں تیری موحبّت مے ہار کے"کے لئے پھر آواز دھندھنی شرو کی.اسمے دو رہے نہیں کی فیض کو چاہنے والے جتنے اپنے معلق مے ہیں اتنے دوسروں ملقوں مے نہیں.لیکن بات جب آواز کی ای تو می اپنے ملک سے ہار گیا.کوئی مہدی حسن بنتا ہے تو کوئی گلام الی .ایک عہدہ کو چھوڈ دن تو اس معاملے مے بھی یہاں کے ناکلچیوں نے ناک کٹوا رکھی ہے -
Translation- Hafeez Kidwai
Published in Navbharat Times- India
No comments:
Post a Comment